مولانا یاسین صاحب کی رحلت علمی دنیا کے لیے ناقابلِ تلافی خسارہ ہے

 م


ولانا حکیم الدین قاسمی و مفتی محمد عباس سمیت معزز شخصیات نے تعزیتِ مسنونہ پیش کی 

باغپت(عباس احمد کیرانوی) مغربی یوپی کے ممتاز مدارس میں سے ایک معتبر ادارہ دارالعلوم حسینیہ تاؤلی کے سابق صدر المدرسین کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا ہے ان کے انتقال سے ہر خاص و عام مغموم ہے خصوصاً انکے تلامذہ کی آنکھیں انکی رحلت پر اشکبار ہیں حضرت مرحوم و مغفور کے شاگردانِ رشید میں ایک ممتاز نام مفتی محمد عباس کا ہے جو حضرت مرحوم کے انتقال کی خبر سننے لیکر اب تک محوِ غم ہے نمائندہ نے کافی دلاسہ دلاتے ہوے مفتی صاحب سے بارہا بات کرنے کوشش کی اور حضرت مرحوم کی زندگی کے متعلق چند دلچسپ معلومات حاصل کرنے


کی کوشش کی لیکن مفتی صاحب مغموم کیفیت کے باعث نمائندہ کے ساتھ گفتگو کرنے سے قاصر رہے انہوں نے صرف اتنا کہا کہ جس کے سر سے اسکا سایہ اٹھ جائے وہ کیا بات کرسکتا ہے مولانا مرحوم و مغفور کے ایک اور شاگر مولانا محمد داؤد صاحب مہتمم مدرسہ بحر العلوم کشن پور برال نے کہا کہ ہم نے جتنے اسباق حضرت کے سے پڑھے ہیں ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اسباق آج بھی ہمارے ذہنوں میں انمٹ نقوش کی طرح محفوظ ہیں بس ہم تو بارگاہِ ایزدی میں یہی دعا کرتے ہیں کہ خدا کریم حضرت الاستاذ کے درجات بلند فرمائے اور جملہ وارثین (نسبی و روحانی و علمی)کو صبرِ جمیل عطا فرمائے مولانا محمد دلشاد صاحب قاسمی نے بھی اظہارِ تعزیت پیش کرتے ہوے حضرت کے دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے مولانا محمد عباس کیرانوی نائب صدر جمعیتہ علماء ہند ضلع باغپت و سابق آرگنائزر آل انڈیا تحریک عوامِ ہند شاملی و باغپت خطیب شاہی جامع مسجد بسود نے کہا کہ حضرت مرحوم کی رحلت ایک حادثہ فاجعہ ہے جس پر شورش کاشمیری کے یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتے ہے 

عجب قیامت کا حادثہ ہے اشک ہے آستیں نہیں ہے

زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے

تیرے جدائی سے مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے

مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

No comments:

Post a Comment